ریاستِ علم وادب اور پیکر خلقِ عظیم

 

از: مولانا اشتیاق احمد قاسمی

استاذ دارالعلوم دیوبند

 

اولین نصیحت

غالباً ۱۹۹۵/ کی بات ہے، جب دارالعلوم دیوبند میں ناچیز کا داخلہ ہوا، داخلہ کی کارروائیوں کی تکمیل کے بعد افتتاحی اجلاس دارالحدیث تحتانی میں ہوا، اس میں بہت سے اکابر اساتذہ تشریف لائے، اُن میں حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی صاحب ظفر بجنوری بھی تھے، آپ نے نہایت مختصر نصیحت فرمائی، سب سے اہم بات اوقات کی حفاظت کی تلقین تھی، آپ نے فرمایا:

”طلبہٴ عزیز! آپ اپنے اوقات ضائع نہ کریں، وقت اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، اسے ضائع کرنا اپنی عمر کو ضائع کرنا ہے، مصروفیات بہت ہوتی ہیں، اگر ان کے لیے اوقات کو مرتب نہ کیا جائے، تو کوئی کام منضبط انداز میں مکمل نہیں ہوپاتا؛ اس لیے آپ اپنے لیے ایک نظام الاوقات بنالیجیے! اس میں ہر کام کا وقت لکھ لیجیے اور کوشش کیجیے کہ اس کے خلاف نہ ہونے پائے تو ان شاء اللہ آپ کے علم میں ترقی ہوگی اور کم وقت میں آپ زیادہ کام کرلے جائیں گے۔“

حضرت کی تقریر سن کر میں نے یہ عزم کرلیا کہ نظام الاوقات ضروربناؤں گا اور اس کے خلاف نہیں کروں گا؛ چنانچہ میں نے شب وروز کے لیے ایک نظام الاوقات بنایا اور اس کو اپنی نشست گاہ کے قریب دیوار پر چپکادیا اور دعا کی کہ یا اللہ! مجھے اس کی پابندی کی توفیق عطا فرما! الحمدللہ! اس کی پابندی پورے سال اس انداز سے ہوئی کہ مجھے دارالحدیث، کمرہ اور مطبخ کے علاوہ دارالعلوم کو دیکھنے کاموقع ہی نہیں ملا اور الحمدللہ! سالانہ امتحان میں تیسری پوزیشن سے کامیابی حاصل ہوئی، افتاء اور تدریب افتاء میں بھی اس کی پابندی کی، پھر معین مدرسی کے زمانے میں اس پر اور بھی سخت ہوگیا، اس کی برکت سے بہت سی کتابوں کے بالاستیعاب مطالعے کا موقع نصیب ہوا۔

اپنی کمیوں، کوتاہیوں کے دور کرنے کا موقع ملا، میں فارسی اور عربی زبان میں بہت کمزور تھا،مقالہ نویسی اور مضمون نگاری سے نابلدتھا، تصنیف وتالیف کے اصول وضوابط سے بے خبر تھا، ان ساری کمیوں کو دور کرنے کا موقع محض حضرت الاستاذ کے چند جملوں کی برکت سے نصیب ہوا، اللہ تعالیٰ حضرت کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائیں!

ابن ماجہ کاسبق

جب اسباق شروع ہوے تو ظہر بعد حضرت درس گاہ تشریف لائے اور ابن ماجہ کا سبق شروع فرمایا، پہلے ہی سبق میں حضرت کے سادے اور پُرمغز اندازِ بیان سے دل متأثر ہوا، سب سے زیادہ متأثرکن حضرت کی زبان تھی، سادگی میں ادبی لطافت سے بڑا حظ ملتا تھا، آپ کوئی جملہ شروع کرتے اور ایسا لفظ استعمال کرتے کہ اندازہ ہوتا کہ اس لفظ کو بدل کر ہی جملہ درست ہوگا؛ مگر ایسا ہرگز نہ ہوتا اس کے لیے نئی تعبیر لاتے اور جملہ بہت خوب صورت ہوکر پورا ہوتا۔

ادبی لطافت

زبان وادب میں حضرت الاستاذ کا امتیاز کسی اور میں دیکھنے کو نصیب نہیں ہوا، کلام کی سطح کس طرح بلند اور کس طرح پست ہوتی ہے؟ یہ چیزیں آپ کے لیے کھلونے کی طرح تھیں اور نظم ونثر دونوں میں یکساں تھیں۔

نظم اور شعر میں حضرت کے مقام کا اندازہ کرنے کے لیے ”نغمہٴ سحر“ کافی ہے۔ نظم کلام کے موزوں کرنے کا نام ہے اور شعر میں احساسِ لطیف ہوتا ہے؛ اس لیے ہرنظم کو شعر نہیں کہا جاسکتا ہے، آپ شعر کو کبھی کبھی اتنا بلند کردیتے تھے کہ عام قارئین کی سطح سے تو اونچا ہوہی جاتا تھا، بعض اوقات خواص کے لیے بھی سمجھنا دشوار ہوتا، ایسے اشعار کے سلسلے میں کبھی خود کہتے کہ اس میں ابہام زیادہ ہوگیا ہے، اس کو کچھ واضح کرنا چاہیے۔

کلیاتِ کاشف کی ترتیب کے دوران اس کا خوب مشاہدہ ہوا، خصوصاً ”رباعیات“ میں آپ کے جواہر پاروں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔

اس طرح کی عبقری استعداد کے باوجود شعرگوئی سے کنارہ کش رہتے، اس کو اپنے لیے قابلِ فخر نہ سمجھتے تھے، اپنے کلام محفوظ رکھنے کا بھی کوئی اہتمام نہ فرماتے، بہت سے قصیدے، نظمیں اور رخصت نامے جہاں اور جس کے لیے لکھے وہیں چھوڑ دیے، میں نے ایک بار عرض کیا کہ آپ کے اشعار محفوظ ہیں یا نہیں؟ فرمایا: نہیں، میں نے کہا: کیوں محفوظ نہیں رکھتے؟ تو فرمایا: میرے کلام کا انتخاب ”نغمہٴ سحر“ میں چھپ گیا ہے، اس کے علاوہ جو کلام ہے اس کی سطح اتنی اونچی معلوم نہیں ہوتی کہ اس کو محفوظ رکھوں اور طباعت کے لیے سوچوں، یہ تو حضرت کی متواصغانہ بات تھی؛ مگر ناچیز کو بعض غیرمطبوعہ نظمیں اور قصیدے ملے ہیں، جو نہایت پاکیزہ اور بلند ہیں۔

نثری ادب میں بھی حضرت کا مقام کافی بلند تھا، عام بول چال میں نہایت سہل؛ بلکہ سہلِ ممتنع بولتے اور لکھتے تھے؛ لیکن جب کبھی کسی ادبی کتاب، کسی شاعر کے کلام پر کچھ لکھنا ہوتا تو زبان نہایت شگفتہ اور ادبی ہوجاتی تھی۔

غزلیہ شاعری سے دلچسپی

حضرت الاستاذ سے ایک بار سوال کیا کہ آپ کو کس صنف کی شاعری سے طبعی مناسبت ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ”غزلیہ شاعری“ سے میں طبعی مناسبت پاتا ہوں، میں نے تجزیہ کیا تو اندازہ ہوا کہ نظم اور قصیدہ میں بھی مضمون غزلیہ باندھتے ہیں، اس سے کلام اونچا ہوجاتا ہے؛ بلکہ نعتوں میں بھی آپ کی تعبیرات غزل کا لطف دیتی ہیں۔

خواب میں حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت پر نعت شریف

جب میں ”ایم، فل“ کے مقالے کے لیے حضرت کی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ کررہا تھا، اس موقع سے ”نغمہٴ سحر“ لے کر خدمت میں حاضر ہوا، اس کے بہت سے اشعار میری سمجھ سے بالا تھے، حضرت نے اُن سب کو سمجھایا، بعض اشعار کے سیاق وسباق، پس منظر اور شانِ ورود کو بھی واضح فرمایا، تب اچھی طرح باتیں سمجھ میں آئیں۔

”نغمہٴ سحر“ میں ایک نعت شریف ہے، اس کا پہلا شعر ہی بڑا پُرکیف ہے؛ مگر عام روش سے بالکل الگ:

فَنا ہوا تو ملی منزلِ سلام مجھے

کمالِ بادہ کشی ہے شکستِ جام مجھے

                                                                                                                                           (ص۴۳)

میں نے حضرت سے اس کا مطلب پوچھا تو حضرت نے فرمایا: اس کا شانِ ورود یہ ہے کہ مجھے خواب میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی، میں نے دیکھا کہ ”روضہٴ اقدس کے پاس ہوں اور وہاں سے مجھے سلام کی آواز آرہی ہے۔“

میں نے اس خواب کوبھائی کاشف سے بیان کیا، انھوں نے مبارک باد دی اور مجھے کہا کہ ایک ”نعت“ کہو؛ تاکہ خواب محفوظ ہوجائے تو میں نے پہلا مصرع کہا،جس کا مطلب ہے کہ جب میں نے اپنی ساری خواہشوں کو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع کرکے، اپنے کو فنا کردیا تومجھے یہ منزل نصیب ہوئی کہ میں روضہٴ اقدس کے پاس ہوں اور مجھے وہاں سے سلام آرہا ہے۔

حضرت الاستاذ نے فرمایا کہ دوسرا مصرع بھائی کاشف کا ہے، جس کا مطلب یہ ہے: مے نوشی کا کمال یہ ہے کہ میخانے کی ساری شراب پی لی جائے، جام وپیمانہ اور ساغرومینا کو ضرورت نہ ہونے کی وجہ سے توڑدیا جائے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وسیرت اور اُسوئہ حسنہ کو مکمل طورپر اپنا کر، محبتِ نبوی میں بالکل وارفتگی کی کیفیت پیدا ہوجائے یہی کمال ہے اور اتباع کااوجِ ثریا بھی۔

خواب کو ذہن میں رکھ کر نعت کے چند اشعار پڑھیے:

عنایتوں کا یہ عالم کہ زندگی ہمہ کیف         $       اب اور جو بھی ملے رحمتِ تمام مجھے

    رحمتِ تمام سے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں اوراس سے پہلے حرفِ ندا ”اے“ محذوف ہے۔

نمودِ صبح سعادت، نجوم در آغوش            $       ملاہے مہر سعادت سے یہ پیام مجھے

چلا ہوں سوئے حرم اور کہکشاں بردوش     $       فریبِ زیست نے رکھا تھا زیرِ دام مجھے

زمانہ آنکھ سے دیکھے گا محشرِ جذبات           $       کبھی حضور نے بخشا جو اذنِ عام مجھے

ظفر نہ پوچھ، قیامت ہے وہ نظر جس نے     $       سکھادیا ہے تمنّا کااحترام مجھے

(ص۴۴)

دوایوارڈ: حضرت الاستاذ کو اپنے مجموعہٴ شاعری ”نغمہٴ سحر“ پرایوارڈ بھی ملا تھا؛ مگر حضرت نے اس کو کبھی ظاہر نہیں فرمایا، جب میں ”ایم، فل“ کا مقالہ لکھ رہا تھا، اس وقت میں نے پوچھنے کے لیے کچھ سوالات مرتب کیے تھے، آپ نے بس ان ہی سوالوں کے جواب دیے، ان کے علاوہ اپنی ذات سے متعلق کچھ نہ بتایا، بعد میں معلوم ہوا کہ اردو اکیڈمی لکھنوٴ نے آپ کی ادبی اور شعری خدمات پر ایوارڈ بھی دیا تھا۔

اور ادیب کامل کے امتحان میں نمایاں کامیابی پر ”سرسیدمڈل“ ملا، اس سے تو ہرشناسا واقف ہے۔

جب ایم، فل کا مقالہ لے کر پہنچا

ناچیز نے تین شخصیات کی شاعری کے تجزیاتی مطالعے کو اپنا موضوع بنایا تھا، حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند، حضرت مفتی کفیل الرحمن صاحب نشاط عثمانی سابق نائب مفتی دارالعلوم دیوبند اور حضرت الاستاذ رحمة اللہ علیہ۔ جب مقالہ جمع ہوگیا، تو حضرت کی خدمت میں اس کی ایک کاپی لے کر پہنچا، حضرت نے جستہ جستہ دیکھا اور حوصلہ افزائی کے لیے فرمایا: ”ماشاء اللہ! تمہاری زبان نکھرگئی ہے، اللہ تعالیٰ اپنے دین کی خدمات کا موقع عنایت فرمائیں!“ چند دنوں بعد ہی دارالعلوم نے ”مالابدمنہ“ کے اردو ترجمہ کی ذمہ داری سونپی اور الحمدللہ پانچ سال سے تجوید سال دوم کے نصاب میں داخل ہے، پھر حضرت الاستاذ کی نگرانی میں ”کلیات کاشف“ کی ترتیب و تحقیق کا موقع ملا اور اس سے پہلے مولانا عبدالرحیم بستوی کی حیات وخدمات لکھنے کابھی حسین موقع نصیب ہوا، حضرت الاستاذ ناچیز کے اردو ادب پڑھنے سے بہت خوش تھے، ہمیشہ حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ آپ نے مقالے میں اپنی شاعری سے متعلق کچھ نہیں پڑھا، بقیہ دونوں شخصیات سے متعلق مواد کو دیرتک دیکھتے رہے۔ اس طرزِ عمل سے میں کافی متأثر ہوا۔

خوش نویسی اور زود نویسی

حضرت الاستاذ کا رسم الخط کافی خوب صورت تھا، باضابطہ کاتب تھے، کافی دنوں تک کتابت کو بہ طورپیشہ بھی اپنایا، اللہ تعالیٰ نے زود نویسی کی دولت سے بھی نوازا تھا، بڑی رفتار کے ساتھ نہایت ہی خوب صورت تحریر لکھتے چلے جاتے، غالباً ۱۹۹۸/ کی بات ہے، دیوبند کے ”محمود ہال“ میں جمعیة علمائے ہند کا فقہی اجتماع ہوا تھا، تجاویز کی تحریر آپ نے لکھی تھی، نہایت ہی رفتار کے ساتھ تھوڑی ہی دیر میں لکھ ڈالی، نہ کہیں حک وفک کیا اور نہ ہی غور وفکر، تجاویز کے نپے تلے الفاظ اور ان کے معانی کے ساتھ حضرت الاستاذ کے باریک اور خوب صورت رسم الخط میں میرے لیے بڑی کشش تھی۔ جناب مولانا محمد سلمان بجنوری مدظلہ العالی مدیر ”ماہ نامہ دارالعلوم“ کی تحریر میں حضرت الاستاذ کی تحریر کی خوشبو محسوس ہوتی ہے؛ مگر زود نویسی اور باریک نویسی کی وہ فن کاری نظر نہیں آتی جو حضرت میں تھی؛ لیکن موصوف کی تحریر راقم الحروف کو حضرت الاستاذ کی یاد دلادیتی ہے۔

حضرت الاستاذ جب کسی کتاب کا ٹائٹل لکھواتے تب آپ کی فنی مہارت کھل کر سامنے آتی تھی، کاتب کو اپنے ذوق سے مشورہ دیتے تو آپ کی جمال پسندی کا اندازہ ہوتا، بڑے بڑے خوش نویس داد دیے بغیرنہ رہتے۔

امتحان کے پرچوں کی کتابت

ایک بار عصر بعد کی مجلس میں حضرت نے فرمایا کہ میں نے کافی دنوں تک مادرعلمی دارلعلوم دیوبند کے پرچوں کی کتابت کی ہے، جب کام زیادہ ہوتا تو کافی کافی دیر تک بیٹھناپڑتا تھا، بعض اوقات اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے میں نے کتابت کی ہے۔ ان دنوں کھانانہیں کھاتا تھا، صرف انڈے کھالیتا تھا؛ تاکہ بار بار استنجاء کی حاجت نہ ہو، معدے پر بوجھ نہ ہو، چستی باقی رہے اور کام کی رفتار میں فرق نہ آئے۔

فقراء کی ضد پر تحمل

حضرت الاستاذ فقراء، غرباء اور عاجزین کا بڑاخیال رکھتے تھے، ان کے در پر سائلین کا تانتا بندھا ہوتاتھا، ایک کو دے کر رخصت کرتے اور مطالعہ وتصنیف میں مصروف ہوتے کہ دوسرا آجاتا، ہر ایک کو کچھ نہ کچھ دے کر واپس فرماتے،اگر کوئی اپنی کوئی ایسی مجبوری بتاتا، جس میں زیادہ پیسے خرچ ہوتے ہیں تو آپ اس کو کچھ زائد دیتے تھے۔

بہت سے فقراء کے لیے تاریخ متعین تھی، دارالعلوم دیوبند میں تنخواہ پہلی تاریخ کو مل جاتی ہے، پہلی تاریخ کو فقراء دروازے پر پہنچ کر سلام کرتے اور حضرت ہر ایک کو دیتے، متعارف فقراء کے لیے رقم متعین ہوتی تھی، وہ خاموشی سے لے کر چلے جاتے، درمیان میں نہ آتے تھے؛ لیکن بعض درمیان میں بھی آجاتے اور سلام کرتے۔

حضرت الاستاذ میں تحمل وبرداشت کی قوت باری تعالیٰ نے بہت زیادہ ودیعت کررکھی تھی۔ فقراء کے بے جا اصرار پر کبھی بھی اُن کو ڈانٹا اور جھڑکا نہیں۔ وہ ”وَأمَّا السَّائلَ فَلَا تَنْھَرْ“ پر کاربند تھے۔

ہدیہ قبول کرنے میں احتیاط

حضرت الاستاذ بڑے کُشادہ دست تھے، گھروالوں پر بھی اور دوست واحباب پر بھی دل کھول کر خرچ کرتے، ہدایا دیتے، اگر کوئی اہلِ تعلق ہدیہ دیتاتو اسے قبول فرمالیتے، اگر مجلس میں کوئی ہدیہ دیتا تو قبول کرکے اہلِ مجلس کو محظوظ کرتے،اگر کھانے کی چیز ہوتی تو سب کو کھلادیتے۔

اگر کوئی ایسا آدمی ہدیہ دیتا جس سے حضرت کا زیادہ تعلق نہ ہوتاتو آپ قبول نہ فرماتے، اگر اصرار کرتا تو اس سے انقباض ہوتا تھا۔

آج کا دور مال ودولت کا ہے، مال کے لیے لوگ کیا کیا جائزاور ناجائز حیلے کرتے ہیں؛ لیکن حضرت الاستاذ اس سے کوسوں دور تھے، جیسے اُن کے دل میں دنیا کی محبت تھی ہی نہیں۔

ضیافت

ضیافت بہت ہی شوق سے کرتے، قسم قسم کے لذیذ کھانے بنواتے اور مہمانوں کو اصرار کے ساتھ کھلاتے، ضیافت میں اکثر مقروض ہوجایا کرتے؛ لیکن کسی کو احساس نہ ہونے دیتے۔ مہمانوں کی کثرت اور ضیافت کامعیار قابلِ رشک ہوتا تھا۔حیدرآباد سے جناب رحیم الدین انصاری مدظلہ اور مولانا محمد فاروق صاحب مفتاحی آتے تو اکثر حضرت کے گھر ہی ٹھہرتے تھے اور بھی بہت سے مہمان اپنے لیے وہاں سہولت محسوس کرتے تھے۔

عصر بعد کی مجلس میں روزانہ دس بیس اور کبھی پچیس تیس اساتذہ طلبہ اور اہلِ تعلق حاضر ہوتے، ہر ایک کو نہایت ہی نفیس پیالی میں چائے پیش کی جاتی، پتی کافی قیمتی ہوتی تھی، یہ سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوا۔

اسفار سے کنارہ کشی

حضرت الاستاذ سفر سے وحشت محسوس کرتے تھے، بڑی مجبوری میں سفر کرتے، مثلاً جمعیة علائے ہند کا اجلاس، یا اس کافقہی اجتماع ہوتا، یا کسی اہلِ تعلق کا حددرجہ اصرارہوتا تو ہی سفر کرتے، اپنے وطن بجنور بھی کبھی اتفاق سے ہی کسی کی شادی یا غم کے موقع سے جاتے تھے۔

طبیعت میں اپنی نفی راسخ

حضرت الاستاذ میں اپنے کمالات کی نفی راسخ تھی، اپنے کو بالکل کچھ بھی نہیں سمجھتے تھے، اپنے شاگردوں کو اپنے سے بڑا سمجھتے تھے، اپنے علم کو بالکل ہی کم تصور کرتے تھے، کہتے بھی رہتے کہ بیٹے! مجھے تو کچھ نہیںآ تا، پھر اس کے دلائل دینے لگتے، سامنے والا بالکل ساکت وصامت رہ جاتا۔

خوش مزاجی

حضرت الاستاذ کی ذہانت وفطانت کی طرح آپ کی خوش طبعی اور خوش مزاجی بھی کافی مشہور ومعروف ہے، آپ کی اس صفت نے بہت سے قلوب کو آپ سے قریب کردیا تھا، دن بھر کی تکان آپ کے یہاں عصر بعد کی مجلس میں دور ہوجاتی تھی۔ اگر آپ کی خوش مزاجی اور لطائف کو جمع کیاجائے تو مستقل ایک مضمون ہوجائے گا۔

(۱) حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب بستوی سے آپ زیادہ دلگی کیا کرتے تھے، ایک بار موصوف محترم پان کھائے ہوے تھے، اُن کوکُلی کرنے کی ضرورت پیش آئی توآپ جلدی سے اٹھے اور اندر سے اُگل دان لے کر آئے اور فرمایا: ”مولانا اگلدان کو شرفِ کلی بخشیں گے“۔ اس جملے سے ایک طرف تو مولانا کے منطقی اور فلسفی رجحان کا مذاق کیا، اور کلی وجزئی کی طرف رمز فرمایا، دوسرے ان کی محترم شخصیت کا اعتراف بھی فرمایاکہ ان کے کلی کرنے کی وجہ سے اُگلدان کو مکمل عزت ملے گی۔

(۲) ایک بار حضرت مولانا بستوی نے مغرب کی نماز پڑھائی اور بڑے ہی اطمینان وسکون سے نماز پوری ہوئی، آپ نے نماز کے بعد فرمایا: ”فجر کا مزا آگیا۔“

موت کے لیے بالکل تیار

حضرت الاستاذ کی زندگی میں ایک خاص چیز دیکھی کہ آپ موت کے لیے ہر لمحہبالکل تیار رہتے تھے، آٹھ سال پہلے بنگلہ دیش تشریف لے گئے، وہاں کہیں تو ہیلی کاپٹر اور کہیں مشین والے بوٹ (کشتی) پر سوار ہونے کا اتفاق ہوا، ساتھ میں ایک اور بزرگ تھے، بوٹ جو بالکل کھلا ہوا ہوتا ہے، وہ جب تیز رفتاری سے چلتا ہے تو بیٹھنے والوں کو بڑی وحشت ہوتی ہے، بعض وقت اوسان خطا کرجاتے ہیں؛ لیکن حضرت اس پر بالکل مطمئن تھے، واپسی کے بعدجب اس کا ذکر ہوا اور پوچھا گیا کہ سب لوگ اس پر گھبرائے ہوئے تھے؛ مگر آپ بالکل مطمئن تھے، کیوں؟ تو فرمایا: بھائی، موت جب آنی ہے آجائے گی،اگر وہیں موت لکھی ہوتی تو آجاتی؛ اس لیے مطمئن تھا۔

غرض یہ کہ حضرت الاستاذ موت کے لیے اپنے کو ہر وقت تیار رکھتے تھے، نہ تو کسی بندے کا حق باقی رکھتے اورنہ ہی اللہ تعالیٰ کے واجب احکام میں سے کچھ باقی رکھتے۔ یہی ایمانِ کامل اور موٴمنِ کامل کی علامت ہے،اگلی دنیا کے افضل واعلیٰ ہونے پراُن کو بالکل اطمینان ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل محبت کے بغیر یہ صفت پیدا نہیں ہوسکتی۔

اپنی علمی اور دینی خدمات پر اطمینان

حضرت الاستاذ کے اندر یہ بات بھی محسوس ہوئی کہ آپ کواپنی علمی، دینی اور ملی خدمات کے شرعاً صحیح اور درست ہونے کا بالکل اطمینان تھا، اپنے ان کاموں کو محض اللہ رب العزت کی رضامندی کا ذریعہ سمجھتے تھے، آپ کی ضخیم تصنیف ”شوریٰ کی شرعی حیثیت“ یہ اگرچہ ایک بڑے بزرگ کے موقف کی تردید میں آپ نے تصنیف فرمائی؛ مگر اس کے ہرورق پر آپ اجرخداوندی کی پوری امید رکھتے تھے۔

بعض وقت بعض لوگوں نے آپ کی کسی خدمت پر اعتراض کیاتو آپ نے ان کو اطمینان دلایا کہ نہیں، میں نے اس کو اللہ کی رضامندی کے لیے کیا ہے اور اللہ تعالیٰ سے پورے اطمینان کے ساتھ اجر کی امید رکھتا ہوں۔

ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرماتے کہ وہ ذات ہردوعالم سے غنی اور مستغنی ہے؛ اس لیے ڈرتابھی ہوں۔

چند نصیحتیں

(۱) ایک بار خدمت میں حاضر ہوکر بتایاکہ حضرت الاستاذ مفتی سعیداحمد صاحب پالن پوری مدظلہ العالی کی نگرانی میں ”سراجی“ کی شرح لکھ رہا ہوں، تو آپ بہت خوش ہوے اور فرمایا: مفتی صاحب کی نگرانی بڑی خوش نصیبی کی بات ہے، بیٹے! خوب محنت کرو، آج لکھ کر پھاڑ دینا بھی ترقی کا زینہ ہے، بہت لکھنے کے بعد ہی لکھنا آتا ہے، پھر تواضعاً محض سمجھانے کے لیے ارشاد فرمایا: ”میں نے بہت سی ایسی تحریریں لکھی ہیں جو میری طرف منسوب نہیں ہیں، کسی اور کے نام سے طبع ہوئی ہیں۔ آج بھی ”اہتمام دارالعلوم“ کی بہت سی تحریریں میں ہی لکھتا ہوں،اس کی برکت دیکھو کہ میں آج بخاری شریف کی شرح لکھنے کے لائق ہوگیا، ایضاح البخاری کی چارجلدیں شائع ہوچکی ہیں۔“

اس وقت اتنی ہی شائع ہوئی تھیں، وفات سے پہلے پہلے تک دس جلدیں آچکی ہیں، اللہ تعالیٰ محترم دوست مولانا فہیم الدین بجنوری مدظلہ کو تکمیل کی توفیقِ ارزانی نصیب فرمائیں!

(۲)اسی مجلس میں یہ بھی فرمایا کہ تم مولانا سعید کے قریب رہتے ہو، ان کے اندر یہ خوبی ہے کہ اسٹیج پر تقریر سے پانچ منٹ پہلے بھی اگر ان کوکوئی موضوع دیا جائے تو اس انداز اور ترتیب سے بیان کرتے ہیں، جیسے پہلے سے انھوں نے اس کی خوب تیاری کررکھی ہے۔ دوسری شخصیت مولاناانظرشاہ صاحب کی ہے، ان کے اندر بھی یہ خوبی ہے،تم بھی اپنے اندر یہ خوبی پیدا کرنے کی کوشش کرو، یہ بڑی بہترین خوبی ہے۔

(۳) ایک موقع سے فرمایا: غصہ کے وقت خاموش رہو، کچھ نہ بولو! اور یہ سوچوکہ اس وقت بولنا مناسب نہیں، بعد میں سوچ کر جواب دوں گا، اس کا بڑا فائدہ ہے، بعد میں سوچوگے تو انفعالی حالت میں بولنے کا نقصان سمجھ میں آجائے گا۔

(۴) ایک بار ارشاد فرمایا کہ اگر تمہاری بات معقول اور مدلل ہوپھر بھی اس پر کوئی اعتراض کرے تو اس کا اثرنہ لو۔

$$$

 

-----------------------------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ8-9، جلد:101 ‏،ذی قعدہ-محرم 1438 ہجری مطابق اگست-ستمبر 2017ء